Pak Urdu Installer

Tuesday 12 March 2013

چچا ڈھکن (پہلی قسط)۔

4 آرا

چچا ڈھکن


چچا چھکن کے کارنامے تو آپ کو یاد ہی ہونگے
چھوٹا غالب لایا آپ کیلئے چچا ڈھکن کے کارنامے



اللہ بخشے یا نہ بخشے، یہ اس کی مرضی ہےچچا ڈھکن ان گنت خوبیوں اور صفات کے مالک و مختار تھے۔ ایسا کونسا جوہر تھا جو کہ ان کے اندر موجود نہیں تھا ۔ خراد مشین  اور ٹیوب ویل وہ چلا لیتے تھے۔ رکشا ان سے پناہ مانگتا تھا۔ موٹر سائیکل کے وہ چیمپئن تھےحتیٰ کہ تانگہ اور اونٹ گاڑی بھی دوڑا لیتے تھے۔ ماہی گیری کے تو وہ ماہر تھے۔ بڑے بڑے ملاح اور مچھلی فروش ان سے مشورے لینے آتے تھے۔ دریا دل اتنے تھےکہ مجال ہے جو انہوں نے کبھی کسی سے مشورے کے عوض فیس وصول کی ہو۔ زیادہ سے زیادہ یہ کرتے تھےکہ چائے کی ایک چینک منگوا لیتے تھے، وہ بھی  صرف اس لیے کہ اس کے بغیر ان کا میٹر چالو نہیں ہوتا تھا۔ یہ ہم نہیں بلکہ وہ بقلم خود کہا کرتے تھےکہ چائے ہے تو جہان ہے ورنہ قبرستان ہے۔یہ ایک روشن حقیقت تھی کہ چائےپیتے ہی ان کے چودہ طبق روشن ہو جاتے تھے اور ان کا کانٹا 100 پر آ جاتا تھا ۔
چائے کے ذکر سے یاد آیا کہ وہ نہ صرف ایک مستند چائے نوش تھےبلکہ چائے سازی کے بھی ماہر تھے۔ ان کی چائے پی کر بڑے بڑے منکروں کو خدا یاد آ جاتا تھااور ان کی نگاہوں میں آخرت کا نقشہ گھوم جاتا تھا جب روزِ محشر گناہگاروں کو گرم گرم پانی پلایا جائے گا، جس سے ان کی انتڑیاں کٹ جائیں گی ۔ انہوں نے شہر کے وسط میں ایک ٹی سٹال کھول  رکھا تھا، جہاں ہر وقت چائے کے عاشقوں کا میلہ لگا رہتا تھا۔
ایک بار ایک پولیس والا ان کے ہوٹل پر آیا اور دونوں ٹانگیں کرسی پر پھیلا کر بیٹھ گیا جیسے وہ ہوٹل کا مالک ہو۔ اس نے دودھ پتی چائے کا آرڈر دیا اور اخبار چاٹنے لگا۔ چاچا نے فٹافٹ چائے تیار کی اور میز پر اتار دی ۔ اس نے مزے لے لے کر چائے پی ، عربی اونٹ کی طرح لمبی ڈکار لی اور کان لپیٹ کروہاں سے کھسکنے لگا ۔ چچا  نے آگے بڑھ کر اس کا راستہ روک لیااور اسے چائے کا بل ادا کرنے کو کہا ۔ اس پر وہ توے کی طرح گرم ہو گیا اور اکڑ کر کہنے لگا :۔ "وردی والوں سے پیسے مانگتے ہو؟ رانا نے آج تک کسی کو چائے کے پیسے نہیں دئیے۔"
"ٹھیک ہے تم نے چائے کے پیسے  کبھی نہیں دئیےاور ہم نے کبھی چھوڑے نہیں ۔۔۔۔جلدی سے پیسے ڈھیلے کرو۔"
"کیا بک رہے ہو، لگتا ہے باہر کی آب وہوا راس نہیں آرہی ہے؟"
"یہ تڑی کسی اور کو دینا ، شرافت سے پیسے نکالو اور اپنی شکل گم کرو۔"
"اوئے رانے کو دھمکی دے رہے ہو، تمہاری مت تو نہیں ماری گئی؟"
"دیکھو میں آخری بار کہہ رہا ہوں ۔ اگر میرا میٹر گھوم گیا تو بہت برا ہوگا۔"
"لگتا ہےتم نے اندر ہونے کا پکا پروگرام بنا لیا ہے۔ اس لیے بہت ٹر ٹر کر رہے ہو۔"
"کون کس کو اندر کرتا ہے، اس کا فیصلہ بعد میں ہوگا ۔ فی الحال تو یہ تحفہ لو۔"
یہ کہہ کر انہوں نے برف توڑنے والا سوا اٹھایا اور اس کا دستہ کھوپڑی پر دے مارا۔ پویس مین کیلئےیہ حملہ غیر متوقع تھا اس لیےوہ ٹھیک سے اپنا دفاع نہ کر سکا اور سرتھام کر وہیں ڈھیر ہوگیا۔ انہوں نے ہوٹل کا شٹر ڈاؤن کیا اور منظر سے یوں غائب ہو گئے جیسے افق سے سورج غائب ہو جاتا ہے۔ وہ کچھ دنوں کیلئے زیرِ زمین چلے گئے۔ پولیس نے ان کی تلاش میں جگہ جگہ چھاپے مارےمگر وہ برآمد نہ ہوسکے۔ یوں لگتا تھا جیسے انہیں زمین کھا گئی ہو یا آسمان نگل گیا ہو۔ آخر کار مقامی کونسلر نے مداخلت کی اور پولیس والے کو خون بہا دے کر معاملہ رفع دفع کرا دیا۔
چچا ڈھکن کو کشتی لڑنے کے ساتھ ساتھ کبڈی کھیلنے کا بھی زبردست شوق تھا۔ وہ اس کھیل کے نامور کھلاڑی تھے۔ بڑے بڑے کھلاڑی ان کا لوہا مانتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان پہلوان بن سکتا ہے مگر پہلوان انسان نہیں بن سکتا، یہ مقولہ ان پر سو فیصدی صادق آتا تھا۔ ابھی اس واقعے کو چند ہی دن گزرے تھے کہ انہوں نے ایک اور معرکہ سر کر ڈالا ۔ اس مرتبہ ان کا ہدف ایک پڑوسی دوکاندار تھا۔ ان کا ہوٹل ایک بوڑھے پیپل کے درخت کے نیچے قائم تھا ۔ اس کے ساتھ پانی کا ایک دستی نلکا لگا ہوا تھا جہاں سے لوگ سارا دن پانی کی بالٹیاں اور ڈبے بھر کر لے جاتے تھے۔ایک بار ایک میلا کچیلا شخصوہاں آیا اور کیچڑ میں لتھڑے ہوئے ہاتھ دھونے لگا ۔ اتفاق سے اس وقت نل کے کے نیچےہوٹل کے دھلے ہوئے برتنوں کا ٹیلہ بنا ہوا تھا ۔ چچا ڈھکن نے جب سن دیہاڑے یہ بے قاعدگی ہوتے دیکھی تو ان سے رہا نہ گیا۔ انہوں نے خوش اخلاقی سے اس شخص کو سمجھایا کہ وہ کھانے پینے ے برتنوںکے اوپر گندے ہاتھ نہ دھوئے مگر اس کوڑھ مغز  پر رتی بھر اثر نہیں ہوا۔ اس پر ان کی رگِ پہلوانی پھڑک اٹھی، وہ مزید وقت ضائع کیے بغیر اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑے ہوئے، اور اس کا گریبان پکڑ کر اسے اتنے زور کا جھٹکا دیا کہ وہ زمین پر گر پڑا اور مٹی چاٹنے لگا ، لیکن وہ بھی بے حد ڈھیٹ آدمی تھا ، اٹھا اور ان سے تو تو میں میں کرنے لگا ۔ اس روانی میں اس کے منہ سے گالی پھسل گئی۔ وہ لکڑ پتھر ہضم کر سکتے تھے، مگر ان سے کسی صورت گالی ہضم نہیں ہوتی تھی۔چنانچہ انہوں نے باکسنک کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئےاس کے چہرے پر ایک زور دار مکہ مارا ۔اتفاق سے اس وقت انہوں نےانگوٹھیوں کا دستہ پہنا ہوا تھا۔ ایک انگوٹھی نے اپنا کام دکھایا اور اس کا فوٹو بگاڑ کے رکھ دیا۔ اس کے منہ سے ایک بھیانک چیخ نکلی اور وہیں پر ڈھیر ہو گیا ۔ چچا ڈھکن نے جب دیکھا کہ بندہ ناک آؤٹ ہو گیا ہےتو وہ وہاں سے نو دو گیارہ ہو گئے۔ وہ تو اچھا ہوا کہ سامنے ایک خیراتی ہسپتال تھا جہاں سے اسے فوری طبی امداد موصول ہو گئی وگرن اس کا کام ہو گیا تھا۔ایک بار پھر ان جکے خلاف مار پیٹ کا پرچہ درج ہو گیا مگر ان پر ان پرچے پرچیوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ جلد ہی ان کے وارنٹ ِ گرفتاری جاری ہو گئےمگر وہ اتنی آسانی سے ہاتھ آنے والے نہیں تھےانہوں نے ایک موالی کے ذریعے اسے پیغام بھجوایا کہ اگر اس نے ان کے خلاف درج کیس واپس نہیں لیا تو اس کی لاش بوری میں سے بر آمد ہوگی۔ چونکہ وہ شخص ان کے ہاتھ دیکھ چکا تھا اس لیے ذبح ہونےکرنے کیلئے لائی جانے والی بکری کی طرح سہم گیا ۔ 
چنانچہ اس نے ہاتھ جوڑ کر اپنی درخواست واپس لے لی کہ جان سب کو پیاری ہوتی ہے ۔
(جاری ہے)
چچا ڈھکن دوسری قسط ملاحظہ کرنے کیلئے یہاں کلک کریں

4 آرا:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

آپ کی قیمتی آرا کا منتظر
فدوی چھوٹا غالب

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

کرم فرما